ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک دشمن سے مقابلہ ہوا
ِ آپ نے اس کو زیر کرلیا اور اس کو گرا کر اس کے سینے پر بیٹھ گۓ تا کہ اس کا سر
قلم کردیں
ابھی حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کافر کو قتل کرنے
کا ارادہ فرما ہی رہے تھے کہ اس نے اچانک آپ کے چہرے پر تھوک دیا- حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک دم اس
کو چھوڑ کر کھڑے ہوگۓ ِ وہ دشمن ہکا بکا رہ گیا کہ کہان تو میری طاقت سے بھی زیر
نہیں ہو رہے تھے اور مجھے چھوڑنے کے لیے تیار نہین تھے اور کیا ذرا سے تھوک دینے
سے مجھے چھور کر کھڑے ہوگۓ-
اس کافر اور دشمن دین نے کہا کہ یہ کیا مجھے قتل کرنے کے
بجاۓ تم نے مجھے چھوڑ دیا حالانکہ اب تو زیادہ غصہ آنا چاہۓ تھا کہ میں نے تو چہرے
پر تھوک کر توھین کی ہے؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بات در اصل یہ ہے کہ جس
وقت میں تمہارے سینے پر بیٹھا تھا اور تمہیں قتل کرنے لگا تھا تو اس وقت تمہیں قتل
کرنے کا ارادہ اور میرا غصہ خالص اللہ کے لیے تھا کیونکہ تم دشمن خدا تھے اور میرے
ذمہ تھا کہ میں تمہیں قتل کروں لیکن جس وقت تم نے میرے منہ پر تھوکا تو میرے نفس
کو اشتعال آیا اور میرے دل میں غصہ پیدا ہوا اور وہ غصہ خالس میرے اپنے لیے تھا نہ
کہ اللہ کے لیے ِ تو میں نے سوچا کہ اب اس کو قتل کرنا خالس اللہ کے لیے نہیں ہوگا
بلکہ اپنے لیے ہوگا اور اپنے لیے غصہ کرنے کی ممانعت ہے ِ اس لیے میں نے تمہیں
معاف کردیا -
یہ سن کر اس کافر نے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیں ِ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں اور کلمہ پڑھتا ہوں کہ جس مذھب کے اندر اتنی دقیق تعلیم ہو اور جس مذھب میں اتنی حد بندی ہو کہ جہاں تک غصہ اللہ کے لیے ھے اسے استمعال کرو اور جہاں غصہ اللہ کے لیے نہ ہو اسے استمعال کرنا چھوڑ دو تو مذھب سچ ہی ہوسکتا ہے لہٰذا میں مسلمان ہوتا ہوں-